نئی دہلی کی یونیورسٹی جس کی رگوں میں فیض کی شاعری ہے

بھارت کی راجدھانی، نئی دہلی میں موجود جواہر لال نہرو یونیورسٹی وہ ادارہ ہے جہاں دیگر انقلابی مصنفین کے ساتھ اردو شعرا فیض احمد فیض اور حبیب جالب کو بھی کثرت سے پڑھا جاتا ہے، جس سے یہ بات سچی ثابت ہوتی ہے کہ ادب کا کوئی مذہب اور سرحد نہیں ہوتی۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی بھارت کی اعلیٰ ترین جامعات میں شمار ہوتی ہے جہاں لگ بھگ بھارت کی ہر ریاست کا طالب علم مل جاتا ہے۔ یہ جامعہ نہ صرف معیاری ریسرچ کے حوالے سے جانی جاتی ہے بلکہ ایکٹیویزم اور اوپن ڈیبیٹ یعنی کھلے کھلم بحث و مباحثہ یہاں کے کلچر کا حصہ ہیں۔ فانی کے اس شعر کہ ’کتاب بند سہی حرف تر کھلا رکھنا، مباحثے کا ہمیشہ سے در کھلا رکھنا‘ کی یہاں پر صحیح عکاسی نظر آتی ہے۔ لیکن یہاں پر کبھی کتاب بھی بند نہیں ہوتی اور علمی مباحثوں کے در بھی کھلے رہتے ہیں۔ 

کوئی بھی تحریک ہو اس میں فیض اور جالب کے اشعار پیٹرول کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہ اشعار طلبہ کو نئی جان دیتے ہیں اور جس انداز سے اشعار کو نعروں میں بدلا جاتا ہے وہ مردوں میں بھی جان پیدا کر دیتا ہے۔ گو کہ یہ دونوں شعرا اردو کے تھے جبکہ جے این یو ایک ایسا ادارہ ہے جہاں درجنوں زبانیں بولنے والے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بھی فیض کی شاعری پڑھتے ہیں۔ 

Leave a Comment