سائنس فکشن کے مصنف مستقبل کی پیشن گوئی کیوں نہیں کرسکتے؟ 

جہاں تک پیشن گوئی کی بات ہے تو اس میں دو طرح کے سائنس فکشن مصنفین ہیں۔ ایک جو واقعی با کمال ہیں اور دوسرے جو ماہر تو نہیں لیکن دوسروں کی تحریر پہ ہاتھ صاف کرنے میں ماہر ہیں۔ با کمال لوگوں کی مختصر سی فہرست میں چند برطانوی ہیں اور جن میں مضبوط ترین امیدوار کے طور پر ایچ جی ویلز سر فہرست ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ایچ جی ویلز نے بہت سارے ایسے عہد ساز ناول لکھے جن کے خیالات پر آج بھی آدھی سے زیادہ سائنس فکشن فلموں کا دانہ پانی چل رہا ہے۔

جہاں تک قوت مشاہدہ کی بات ہے تو ہکسلے بہت ہی غیر معمومی انسان تھے۔ وہ خوف زدہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ سائنس کی باریکیوں سے آگاہی کے سبب ان کا کام روز بروز نئے حیرت کدوں کا در وا کرتا ہے۔ گویا وہ اپنے زمانے سے 50 برس آگے تھے۔ ایسا لگتا ہے ہم بچوں کے سکول میں قدم رکھتے ہیں جہاں لندن کا آرکسٹرا تین سالہ بچے کی زیرنگرانی بج رہا ہے۔ محض 64 ہزار الفاظ کی مدد سے ہکسلے نے سائنس فکشن کی نئی عمارت کھڑی کر ڈالی ہے جسے فلم اور ٹی وی کی دنیا ابھی تک دریافت کیے چلی جا رہی ہے۔ ایٹن میں بطور استاد انہوں نے ایرک آرتھر بلئیر کو متاثر کیا جس نے بعد میں جارج آرویل کے قلمی نام سے لکھا اور ان دو مصنفین نے ڈسٹوپین (dystopian) سائنس فکشن  کا ایسا بلند معیار قائم کیا جس کے قریب بھی شاید ہی کوئی پہنچ سکا ہو۔ 

نوجوانی کے دور میں موضوع گفتگو کمپیوٹر اور ٹیلی فون لائنز ہوا کرتے تھے کہ کیسے ایک دن یہ باہم یکجا ہو کر ہماری زندگی میں انقلاب برپا کر دیں گے۔ میرے آس پاس اکثر لڑکے ایسی کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ یہ خیال کہ شاید لاکھوں لوگ لیپ ٹاپ پر گھروں سے کام کریں بہت ہی زبردست تھا اور میرا خیال ہے میرے ذہن میں ایسی ممکنہ صورت حال کی پرچھائی تھی۔ جب میں 12 سال کا لڑکا تھا اس وقت آرتھر سی کلارک کی بہت ساری کتابیں پڑھتا اور یاد رکھتا تھا۔

Leave a Comment